حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں

حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ حضور اقدس نے زکوٰة کا مال وصول کرنے کیلئے بھیجا ، میں ایک صاحب کے پاس گیا اور ان سے ان کے مال کی تفصیل معلوم کی تو ان پر ایک اونٹ کا بچہ ایک سال کا واجب تھا

میں نے ان سے اس کا مطالبہ کیا وہ فرمانے لگے کہ ایک سال کا بچہ نہ دودھ کے کام کا، نہ سواری کے کام، انہوں نے ایک نفیس عمدہ جوان اونٹنی سامنے کی کہ یہ لے جاﺅ میں نے کہا کہ میں تو اس کو نہیں لے سکتا کہ مجھے عمدہ مال لینے کا حکم نہیں البتہ اگر تم یہی دینا چاہتے ہو تو حضور اقدس سفر میں ہیں اور آج پڑاﺅ فلاں جگہ تمہارے قریب ہی ہے حضور کی خدمت میں جا کر پیش کر دو اگر منظور فرما لیا تو مجھے انکار نہیں ورنہ میں معذور ہوں

وہ اس اونٹنی کو لے کر میرے ساتھ ہو لئے اور حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے پاس آپ کے قاصد زکوٰة کا مال لینے آئے تھے اور خدا کی قسم مجھے آج تک یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی کہ رسول اللہ یا ان کے قاصد نے میرے مال میں کبھی تصرف فرمایا ہو اس لیے میں نے اپنا سارا مال سامنے کر دیا انہوں نے فرمایا کہ اس میں ایک سال اونٹ کا بچہ زکوٰة کا واجب ہے حضور ایک سال کے بچہ سے نہ تو دودھ کا ہی نفع ہے نہ سواری کا اس لیے میں نے ایک عمدہ جو ان اونٹنی پیش کی تھی جس کو انہوں نے قبول نہیں فرمایا۔ اس لیے میں خود لے کر حاضر ہوا ہوں۔ حضور نے فرمایا کہ تم پر واجب تو وہی ہے جو انہوں نے بتلائی مگر تم اپنی طرف سے اس سے زیادہ اور عمدہ مال دو تو قبول ہے اللہ تمہیں اس کا اجر مرحمت فرمائیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ حاضر ہے حضور نے قبول فرما لیا اور برکت کی دعا فرمائی،

یہ زکوٰة کے مال کا منظر ہے آج بھی اسلام کے بہت سے دعویدار ہیں اور حضور کی محبت کا دم بھی بھرتے ہیں لیکن زکوٰہ کے ادا کرنے میں زیادتی کا تو کیا ذکر ہے۔ پوری مقدار میں ادا کرنا موت ہے جو اونچے طبقے والے زیادہ مال والے کہلاتے ہیں ان کے یہاں تو اکثر و بیشتر اس کا ذکر ہی نہیں لیکن جو متوسط حیثیت کے لوگ ہیں اور اپنے کو دیندار بھی سمجھتے ہیں وہ بھی اس کی کوشش کرتے ہیں جو خرچ اپنے عزیز رشتہ داروں میں یا کسی دوسری جگہ مجبوری سے پیش آجائے اس میں زکوٰة ہی کی نیت کر لیں۔

No comments:

Post a Comment