اسلام جہاں الوہی اصولوں پر جمہوری معاشرے کے قیام کی تعلیم دیتا ہے

اظہار رائے کی آزادی کا حق

اسلام جہاں الوہی اصولوں پر جمہوری معاشرے کے قیام کی تعلیم دیتا ہے وہاں وہ ان تمام حقوق و فرائض کا بھی اورواضح انداز سے تعین کرتا ہے جو ایک فلاحی اور جمہوری معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کے بغیر کسی بھی معاشرے میں جمہوری اقدار اورعدل و انصاف کی روایت تشکیل پذیر نہیں ہوسکتی ۔ اسی لئے اسلام نے نہ صرف ہر فرد کو اظہار رائے کی آزادی کا حق عطا کیا ہے بلکہ اہل اسلام کو اپنے اجتماعی معاملات اصول مشاورت پراستوار کرنے کی تعلیم بھی دی ہے :

” اور اپنے پروردگار کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ۔ اور ان کا ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیںo“ ” اور آپ (اہم) کاموں میںان سے مشورہ کیا کریں پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تواللہ پر بھروسہ کیا کریں۔ بے شک اللہ توکل والوں سے محبت کرتا ہےo “

اظہار رائے کی آزادی میں حق تقریر

حق رائے ، اختلاف اورتنقید کا حق اورجدید الفاظ میں صحافتی آزادی بھی شامل ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ شہریوں کے سوچنے، رائے رکھنے اوراپنی رائے کے اظہار کرنے میں ریاست کبھی بھی مداخلت نہیں کرے گی۔ اسلام نے یہ حق ہر فرد کو عطا کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے : ” اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں(اہل حق ) صاحبان امر کی ، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم با ہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اوررسول (A) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اوریوم آخرت پرایمان پر رکھتے ہو، (تو) یہی( تمہارے حق میں) بہتر اورانجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہےo “ اس آیت مبارکہ میں اپنے تنازعات کوالوہی قانون کی روشنی میں حل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ انسانی سطح پرکوئی بھی قانون اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ وہ کسی بھی تنازع کو طے کرتے ہوئے عدل کے تقاضے کو اس طرح پورا کرے کہ افراد معاشرے کے اظہار رائے کا حق بھی محفوظ رہے۔

دوسرے مقام پرارشاد ہے : ” ( یہ اہل حق) وہ لوگ ہیں کہ ہم انہیں زمین میں اقتداردے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام ) قائم کریں اورزکوٰة کی ادائیگی (کا ہتمام) کریں اور(پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کاحکم کریں اور (لوگوں کو ) برائی سے روک دیں اورسب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہےo “ اس آیت مبارکہ میں بھی اسلام کے پھیلانے اوربرائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حکم کی حکمت بھی یہی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اس وقت ہی نیکی کا فروغ اوربرائی کاقلع قمع ہوسکتا ہے جب وہاں اظہار رائے کی آزادی کا حق محفوظ ہو۔ قرآن حکیم نے حکومتی معاملات میں بھی مشاورت کے اصول کو اپنانے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔ ” (اے حبیب والا صفات ) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں اوراگر آپ تندخو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کربھاگ جاتے سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اوران کے لیے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ پربھروسہ کیا کریں بے شک اللہ توکل والوں سے محبت کرتا ہےo “

”اور (ان کے لیے ہے) جو اپنے پروردگار کاحکم مانتے ہیں اورنماز قائم کرتے ہیں۔ اوران کا ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے (بجزفرائض اوران معاملات کے جن میں مشورے کی ضرورت نہیں ہوتی) اورجوہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (خواہ مال و دولت ہو، یا علم وعرفان)o “ اصول مشاورت بیان کرنے والی یہ آیات بھی اظہار رائے کی آزادی کو بیان کرتی ہے۔ کیونکہ مشاورت کا عمل اس وقت تک انجام پذیر نہیں ہوسکتا جب تک حکمران عوام سے مشورہ طلب نہ کرے اورعوام اس وقت تک مشورہ نہیں دے سکتے جب تک کہ انہیں اظہار رائے کی آزادی کاحق نہ ہو۔ لہٰذا قرآن حکیم کااصول مشاورت کواپنانے کا حکم اس حکمت کاحامل ہے کہ اسلامی ریاست میں ہر شہری کواظہار رائے کی آزادی کاحق حاصل ہوگا۔

سیرت نبوی میں ہمیں اس امر کی کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں حضور اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ سے مختلف معاملات پر مشاورت کی غزوہ بدر، اسیران بدر، غزوہ احد، غزوہ احزاب اورمعاہدہ حدیبیہ میں حضور اکرم ﷺ نے فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے سے مشورہ کیا۔ ایک مشہور حدیث کے مطابق آپ نے ارشاد فرمایا : ” بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔“ حضور اکرم ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی اسلام کی انہی زریں تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے جملہ معاملات میں باہمی مشاورت کے اصول پرعمل کیا۔ ان کے دور خلافت میں اظہار رائے کی آزادی کایہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کے خطبہ جمعہ کے دوران ایک شخص نے کھڑے ہوکر آپ سے عتراض کیا کہ وہ آپ کے خطبہ کواس وقت نہیں سنیں گے جب تک کہ وہ اپنے کرتے کے لیے بیت المال سے زیادہ کپڑا لینے پرجواز فراہم نہ کرے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ نے خواتین کے حق مہر کی مقدار کے تعین کا ارادہ کیا تو ایک خاتون نے آپ کے اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا۔ آپ نے قرآن حکیم کی یہ آیت نہیں پڑھی : ” اوراگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اورتم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ظلم وبہشت کے ذریعے اورکھلا گناہ کر کے وہ مال (واپس) لوگے o “ حضرت عمر ؓ نے اعتراض کرنے والی خاتون کی دلیل کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف اپنا فیصلہ واپس لے لیا بلکہ اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے انہیں ایک غلطی سے بچا لیا۔

19۔ مریض کا حق

اسلام ہر فرد معاشرہ کو ایسا سماجی مقام دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو معاشرے کا ایسا جزو تصور کرے جہاں اس کے ماحول کا ہر فرد اس کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہے۔ سیرت نبویﷺ کی تعلیمات اس کا ہمہ گیر احاطہ کرتی ہیں۔ مریض جو قدرتی معذوری کے سبب معاشرے کا عضو فعال نہیں رہتا، اس امر کا مستحق ہے کہ اسے بھر پور توجہ دی جائے اسلام نے مریض کو وہ حقوق عطا کئے ہیں جو کسی دوسرے معاشرے میں نہیں دیکھے جا سکتے۔ آپ نے افراد معاشرہ کو مریض کے معاشرتی، نفسیاتی، طبی اور سماجی حقوق کے تحفظ کی تلقین فرمائی کہ نہ صرف مریض کی صحت یابی کیلئے جملہ اقدامات کئے جائیں بلکہ اس کے نفسیاتی و سماجی مورال کو بھی بلند رکھا جائے۔ ”حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا: جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو لوٹنے تک گویا وہ جنت کے باغات میں ہوتا ہے۔“ ”حضرت ثویر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا میرے ساتھ آﺅ حسن کی عیادت کریں اور ہم نے دیکھا کہ حضرت ابو موسیٰ حسن کے پاس ہیں تو حضرت علی نے فرمایا اے ابو موسیٰ کیا تم حسن کی عیادت کیلئے آئے تھے یا ملنے کیلئے تو ابوموسیٰ نے فرمایا نہیں بلکہ میں عیادت کیلئے آیا ہوں۔