۔”حضرت عبداللہ بن جعفرؓ سے روایت
۔”حضرت عبداللہ بن جعفرؓ سے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ جب حضرت جعفرؓ کی شہادت کی خبر آئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جعفرؓ کے گھر والوں کے لیے کھانا پکاﺅ۔ ان پر ایسی مصیبت نازل ہوئی ہے جس نے انہیں اپنی گرفت میں لے کر دنیا سے بے خبرکر دیا ہے۔ کبر سنی کا لحاظ 260۔ ”حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میمونہؓ بنت حارث سے روایت ہے
تحریر: مولانا عبدالغفار حسن عمرپوری
246۔”میمونہؓ بنت حارث سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک لونڈی آزاد کی۔ پھر اس کا ذکر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ آپ نے فرمایا: اگر تو اپنے ماموں کو یہ لنڈی دے دیتی تو تیرے بڑے اجر کا باعث ہوتا۔
“ تشریح: یعنی صدقہ اپنی جگہ اچھی عبادت ہے لیکن اس صدقہ سے مستحق خویش و اقارب فائدہ اٹھائیں تو اس طرح دہرا ثواب ہے۔ یعنی ایک ثواب صدقہ کی بنا پر اور دوسرا صلہ رحمی کی وجہ سے۔
کمزوروں سے حسن سلوک
247۔ ”حضرت جابرؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں وہ پانی جائیں، اللہ اس کی موت کو آسمان بنا دیتا ہے اور اسے جنت میں داخل کرتا ہے کمزوروں سے نرمی، والدین سے محبت و شفقت غلاموں سے حسن سلوک۔
اسلام ہر شخص کو شخصی راز داری کا حق عطا کرتا ہے
مرتبہ: عظمان عمر
اسلام ہر شخص کو شخصی راز داری کا حق عطا کرتا ہے۔ حضور اکرم نے دوسروں کے شخصی اور ذاتی معاملات کی بلا وجہ کھوج لگانے سے منع فرمایا ہے۔ آپ کا یہ حکم قرانی تعلیم کا مظہر تھا۔ ایک دوسرے کے خفیہ اور شخصی معاملات میں عدم مداخلت کی تعلیم فرما کر آپ نے ہر فرد معاشرہ کو شخصی رازداری کا حق عطا کر دیا۔ کیونکہ وہ معاشرہ
انفرادی حقوق
مرتبہ: عظمان عمر
اسلام پوری انسانیت کےلئے رحمت بن کر آیا۔ حضور نبی اکرم نے انسانیت کو اسلام کی آفاقی تعلیمات عطا کر کے ہر نوع کی غلامی، جبر اور استحصال سے آزاد کر دیا۔ انسانیت پر آپ کے اس احسان اور منصب نبوت کے اس پہلو کا تذکرہ قرآن حکیم نے یوں کیا:
”اور (یہ رسول گرامی) اہل ایمان پر سے انکے بار گراں اور طوق (قیود) جوان پر (مسلط) تھے، ساقط فرماتے اور انہیں نعمت آزادی سے بہرہ یاب کرتے ہیں۔“ آپ کی شان کا فیضان انفرادی و اجتماعی دونوں سطح پر روبہ عمل ہوا۔ انفرادی سطح پر اسلام نے افراد معاشرہ کو وہ حقوق عطا کئے جن کا شعور انسانیت آج حاصل کر رہی ہے۔ آپ کے عطا کردہ نمایاں انفرادی حقوق یہ ہیں۔
1۔ زندگی کے تحفظ کا حق
2۔ انسانی جان کی حرمت کا حق
3۔ رحم مادر میں جنین کا حق
4۔ عزت کا حق
5۔عزت کی حفاظت کا حق
6۔ نجی زندگی کے تحفظ کا حق
7۔ شخصی رازداری کا حق
8۔سلامتی کا حق
9۔سماجی مساوات کا حق
10۔ قانونی مساوات کا حق
11۔ حصول انصاف کا حق
12۔ آزادانہ سماعت کا حق
13۔ دوسروں کے جرائم سے برات کا حق
14۔ صفائی پیش کرنے کا حق
15 ۔آزادی کا حق
16۔ شخصی آزادی کا حق
17 مذہبی آزادی کا حق
18۔ اظہار رائے کی آزادی کا حق
19۔ مریض کا حق
20۔ طبی سہولیات کی فراہمی کا حق
21۔ ملکیت کا حق
22۔ بنیادی ضروریات کی کفالت کا حق
23۔ تعلیم کا حق
24۔ معاہدہ کرنے کا حق
25۔ازدواجی زندگی کا حق
26۔ خاندان کے قیام کا حق
27۔ میت کا حق
حضور کا صدقہ کی کھجور کے خوف سے تمام رات جاگنا
تحریر : مولانا محمد زکریا مرحوم
حضرات صحابہ کرامؓ ہر عادت ہر خصلت اس قابل ہے کہ اس کو چنا جائے اور اس کا اتباع کیا جائے اور کیوں نہ ہو کہ اللہ جل شانہ نے اپنے لاڈلے اور محبوب رسول کی مصاحبت کیلئے اس جماعت کو چنا اور چھانٹا۔
حضور کا ارشاد ہے کہ میں نبی آدم کے بہترین قرن اور زمانہ میں بھیجا گیا۔ اس لئے ہر اعتبار سے یہ زیادہ خیر کا تھا اور زمانہ کے بہترین آدمی حضور کی صحبت میں رکھے گئے۔
حضور کی ایک جنازہ سے واپسی اور ایک عورت کی دعوت
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازہ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ ایک عورت کا پیام کھانے کی درخواست لے کر پہنچا۔ حضور خدام سمیت تشریف لے گئے اور کھانا سامنے رکھا گیا تولوگوں نے دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ لقمہ چبا رہے ہیں۔ نگلا نہیں جاتا۔ حضور نے فرمایا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ریوٹر میں بکری خریدنے آدمی بھیجا تھا۔ وہاں ملی نہیں۔ پڑوسی نے بکر ی خریدی تھی۔ میں نے اس کے پاس قیمت سے لینے کو بھیجا وہ تو ملے نہیں اس کی بیوی نے بکری بھیج دی۔ حضور نے فرمایا کہ قیدیوں کو کھلا دو۔
حضور کی علو شان کے مقابلہ میں ایک مشتبہ چیز کا گلے میں اٹک جانا کوئی ایسی اہم بات نہیں کہ حضور کے ادنیٰ غلاموں کو بھی اس قسم کے واقعات پیش آجاتے ہیں۔
حضور کا صدقہ کی کھجور کے خوف سے تمام رات جاگنا
ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام رات جاگتے رہے اور کروئیں بدلتے رہے ازواج مطہرات میں سے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج نیند نہیں آتی۔ ارشاد فرمایا کھجور پڑی ہوئی تھی، میں نے اٹھا کر کھا لی تھی کہ ضائع نہ ہوا، اب مجھے یہ فکر ہے کہ کہیں وہ صدقہ کی نہ ہو، اقرب یہی ہے کہ وہ حضور کی اپنی ہی ہو گی مگر چونکہ صدقہ کا مال بھی حضور کے یہاں آتا تھا اس شبہہ کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات بھر نیند نہ آتی کہ خدانخواستہ وہ صدقہ کی ہو اور اس صورت میں صدقہ کا مال کھایا گیا ہو۔ یہ تو آقا کا حال ہے کہ محض شبہہ پر رات بھر کروئیں بدلیں اور نیند نہیں آئی۔ اب غلاموں کا حال دیکھوکہ رشوت سود ، چوری، ڈاکہ ہر قسم کا ناجائز مال کس سرخروئی سے کھاتے ہیں اور ناز سے اپنے کو غلامان محمد شمار کرتے ہیں۔
لڑنے سے مت گھبراﺅ
رسول نے فرمایا کہ جب تمہارا مقابلہ د شمن سے ہو تو مسلمان کی طرح خوف سے بے پروا ہو کر لڑو۔ اپنی جنگی تنظیم اچھی طرح سے کرو اور اپنے جھنڈے د لیر ہو کر بلند رکھو۔ اور ہمیشہ اپنے امیر کی اطاعت کرو۔ د شمن کے سامنے ہتھیار ڈالو نہ ہی
پیٹھ دکھاﺅ۔ تم اللہ کی خاطر لڑتے ہو۔ اللہ کے دین کی سربلندی تمہارا مقصود ہے۔ اس لیے لڑنے سے مت گھبراﺅ۔ دشمن کی تعداد سے نہ خائف ہو ۔ اللہ فتح دے تو ناشکری نہ کرو۔ اور ہتھیار ڈالنے والوں کے خون سے ہرگز اپنی تلوار کو رنگین کرو نہ ہی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں پر ہاتھ اٹھاﺅ۔ کھجوریا دوسرے پھلدار درخت کا ٹونہ ہی د شمن کے گھر جلاﺅ۔ صرف وہی کچھ لو جس کی ضرورت ہو۔ کبھی بربادی نہ کرو۔ دشمن کے شہروں پر قبضہ کر لو اور دشمن کو پناہ دینے والوں کو تباہ کر د و۔ قیدیوں اور دوسرے رحم کی بھیک مانگنے والوں پر رحم کرو۔ اس طرح خدا تم پر رحم کریگا مگر مغرور اور باغی کو کچل دو اور ان کو بھی جو اپنے معاہدوں کو توڑ دیتے ہیں۔ دشمن کے ساتھ اپنے عہد میں ہرگز غداری یا د روغ کو جگہ نہ د و۔ ہر بات میں وفاداری، صداقت اور شرافت کا ثبوبت د و۔ عہد کا پاس کرو۔ راہب کو چھیڑو نہ ہی اس کے مسکن کو تباہ کرو مگر جو تمہاری عاید کی ہوئی شرطوں سے انحراف کرئے، اسے قتل کر دو۔
(الحدیث)
تم اللہ کی خاطر لڑتے ہو۔ اللہ کے دین کی سربلندی تمہارا مقصود ہے۔ اس لیے لڑنے سے مت گھبراﺅ۔
رسول نے فرمایا کہ جب تمہارا مقابلہ د شمن سے ہو تو مسلمان کی طرح خوف سے بے پروا ہو کر لڑو۔ اپنی جنگی تنظیم اچھی طرح سے کرو اور اپنے جھنڈے د لیر ہو کر بلند رکھو۔ اور ہمیشہ اپنے امیر کی اطاعت کرو۔ د شمن کے سامنے ہتھیار ڈالو نہ ہی
پیٹھ دکھاﺅ۔ تم اللہ کی خاطر لڑتے ہو۔ اللہ کے دین کی سربلندی تمہارا مقصود ہے۔ اس لیے لڑنے سے مت گھبراﺅ۔ دشمن کی تعداد سے نہ خائف ہو ۔ اللہ فتح دے تو ناشکری نہ کرو۔ اور ہتھیار ڈالنے والوں کے خون سے ہرگز اپنی تلوار کو رنگین کرو نہ ہی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں پر ہاتھ اٹھاﺅ۔ کھجوریا دوسرے پھلدار درخت کا ٹونہ ہی د شمن کے گھر جلاﺅ۔ صرف وہی کچھ لو جس کی ضرورت ہو۔ کبھی بربادی نہ کرو۔ دشمن کے شہروں پر قبضہ کر لو اور دشمن کو پناہ دینے والوں کو تباہ کر د و۔ قیدیوں اور دوسرے رحم کی بھیک مانگنے والوں پر رحم کرو۔ اس طرح خدا تم پر رحم کریگا مگر مغرور اور باغی کو کچل دو اور ان کو بھی جو اپنے معاہدوں کو توڑ دیتے ہیں۔ دشمن کے ساتھ اپنے عہد میں ہرگز غداری یا د روغ کو جگہ نہ د و۔ ہر بات میں وفاداری، صداقت اور شرافت کا ثبوبت د و۔ عہد کا پاس کرو۔ راہب کو چھیڑو نہ ہی اس کے مسکن کو تباہ کرو مگر جو تمہاری عاید کی ہوئی شرطوں سے انحراف کرئے، اسے قتل کر دو۔
(الحدیث)
اسلام پوری انسانیت کےلئے رحمت بن کر آیا
مرتبہ: عظمان عمر
اسلام پوری انسانیت کےلئے رحمت بن کر آیا۔ حضور نبی اکرم نے انسانیت کو اسلام کی آفاقی تعلیمات عطا کر کے ہر نوع کی غلامی، جبر اور استحصال سے آزاد کر دیا۔ انسانیت پر آپ کے اس احسان اور منصب نبوت کے اس پہلو کا تذکرہ قرآن حکیم نے یوں کیا:
”اور (یہ رسول گرامی) اہل ایمان پر سے انکے بار گراں اور طوق (قیود) جوان پر (مسلط) تھے، ساقط فرماتے اور انہیں نعمت آزادی سے بہرہ یاب کرتے ہیں۔“ آپ کی شان کا فیضان انفرادی و اجتماعی دونوں سطح پر روبہ عمل ہوا۔ انفرادی سطح پر اسلام نے افراد معاشرہ کو وہ حقوق عطا کئے جن کا شعور انسانیت آج حاصل کر رہی ہے۔ آپ کے عطا کردہ نمایاں انفرادی حقوق یہ ہیں۔
تحریر : مولانا محمد زکریا مرحوم
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ لوگ خاضر تھے کہ ایک شخص سامنے سے گزرا حضور نے دریافت فرمایا کہ تم لوگوں کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے، عرض کیا یا رسول اللہ شریف لوگوں میں ہے، واللہ اس قابل ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیام دے دے تو قبول کیاجائے کسی کی سفارش کر دے تو مانی جائے۔ حضور سن کر خاموش ہو گئے
اس کے بعد ایک اور صاحب سامنے سے گزرے حضور نے ان کے متعلق بھی سوال کیا لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ایک مسلمان فقیر ہے کہیں منگنی کرے تو بیاہانہ جائے۔ کہیں سفارش کرے تو قبول نہ ہو، بات کرے تو کوئی متوجہ نہ ہو
آپ نے ارشاد فرمایا کہ اس پہلے جیسوں سے اگر ساری دنیا بھر جائے تو اس سب سے یہ شخص بہتر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ محض دنیاوی شرافت اللہ کے یہاں کچھ بھی دقعت نہیں رکھتی۔
ایک مسلمان فقیر جس کی دنیا میں کوئی دقعت نہ ہو، اس کی بات کہیں بھی نہ سنی جاتی ہو۔ اللہ کے نزدیک سینکڑوں ان شرفاءسے بہتر ہے جس کی بات دنیا میں بڑ وقعت سے دیکھی جاتی ہو اور ہر شخص ان کی بات سنتے اور مانتے کہ تیار ہو لیکن اللہ کے یہاں اس کی کوئی وقعت نہ ہو دنیا کا قیام یہی اللہ والوں کی برکت سے ہے
یہ تو حدیث میں خود موجود ہے کہ جس دن دنیا میں اللہ کا نام لینے والا نہ رہے گا، قیامت آجائے گی اور دنیا کا وجود ہی ختم ہو جائیگا اللہ کے پاک نام ہی کی یہ برکت ہے کہ یہ دنیا کا سارا نظام قائم ہے۔
امام احمد بن حنبل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں، اور جسکی طہارت نہیں اس کی نماز کالعدم ہے اور جس کی نماز نہیں اس کا دین بھی نہیں۔ دین میں نماز کا وہی مقام ہے جو جسم کے اندر سر کا ہے۔“
”حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ وقت نہائے کیا اس پر کچھ میل باقی رہے گا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا: یہی مثال ہے پنج وقتہ نمازوں کی۔اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے خطائیں معاف کرتا ہے۔
”(بروایت ابوہرہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی باتیں نہ بتلاوں جن سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹاتا ہے اور درجے بلند فرماتا ہے؟“ صحابہ اکرمؓ نے جواب دیا: یا رسول اللہ! ضرور بیان فرمائیے۔ آپ نے فرمایا:۔
”(۱) موسم اور حالات کے ناخوشگوار ہونے کے باوود وضو پورا پورا کرنا۔
(۲) مسجد کی طرف زیادہ قدم اٹھانا (یعنی لمبی مسافت طے کر کے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا)۔
(۳) ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں رہنا یہی رباط ہے (یعنی اس کا ثواب کے جہاد کیلئے سرحدوں پر پہرہ دینے کے ہم پلہ ہے)۔ مالک ابن انسؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فذا لکھ الرباط (یہی رباط ہے) کو دوبار فرمایا:۔
”حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم کسی شخص کو مسجد میں پابندی سے حاضر ہوتے دیکھو تو تم اس کے ایمان کی شہادت دو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مساجد کو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان لایا ہو۔“
”حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو لوگ تاریکیوں میں مسجد جانیوالے ہیںانہیں قیامت میں نورتام کی خوشخبری سنا دو۔
زکوٰة
”(بروایت ابوہریرہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ان دو شخصوں کی سی ہے جنہوں نے لوہے کی زر ہیں۔ پہنی ہوئی ہیں ان دونوں کے ہاتھ سینے اور حلق تک جکڑے ہوئے ہیں۔ قیا انسان جب صدقہ دیتا ہے تو وہ زرہ کشادہ ہو جاتی ہے اور بخیل جب صدقہ دینے کا خیال کرتا ہے تو وہ زرہ اور تنگ ہو جاتی ہے اور زرہ کا ہر حلقہ (چھلا) اپنی جگہ پر ڈٹ جاتا ہے۔
”حضرت عائشہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”جس دولت میں مال زکوٰة کی ملاوت ہو وہ تباہ و برباد ہوتی ہے۔“
تشریح : زکوٰة کی ملاوٹ کے دو مطلب شارحین حدیث نے بیان کیے ہیں:
(۱) جس مال میں زکوٰة واجب ہو اس میں سے اگر زکوٰة نہ نکالی جائے تو پورا مال نحوست اور بے برکتی کا شکار ہو جاتا ہے اور اخلاقی، شرعی طور پر وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اس کو ایک مسلمان اپنے استعمال میں لا سکے، گویا وہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
(۲) ایک شخص خوش حال اور غیر مستحق ہونے کے باوجود زکوٰة وصول کرتا ہے، اس طرح وہ زکوٰة و خیرات کا مال اپنی حلال کمائی میں ملا کر پورے سرمایہ کو ناپاک بنا دیتا ہے۔
روزہ
”حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کی کچھ حاجت نہیں ہے کہ وہ روزہ رکھ کر کھانا پینا چھوڑ دے“۔
حج
”(بروایت ابوہریرہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اس گھر (بیت اللہ) کی زیارت کی اور فحش، فسق و فجور میں مبتلا نہیں ہوا تو وہ(پاک صاف ہو کر) اس طرح لوٹتا ہے جس طرح اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔“