رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

تحریر: مولانا عبدالغفار حسن عمرپوری
”حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جس میں امانت نہیں اس میں ایمان نہیں، اور جسکی طہارت نہیں اس کی نماز کالعدم ہے اور جس کی نماز نہیں اس کا دین بھی نہیں۔ دین میں نماز کا وہی مقام ہے جو جسم کے اندر سر کا ہے۔“
”حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ اس میں روزانہ پانچ وقت نہائے کیا اس پر کچھ میل باقی رہے گا؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا: یہی مثال ہے پنج وقتہ نمازوں کی۔اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے خطائیں معاف کرتا ہے۔
”(بروایت ابوہرہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی باتیں نہ بتلاوں جن سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹاتا ہے اور درجے بلند فرماتا ہے؟“ صحابہ اکرمؓ نے جواب دیا: یا رسول اللہ! ضرور بیان فرمائیے۔ آپ نے فرمایا:۔
”(۱) موسم اور حالات کے ناخوشگوار ہونے کے باوود وضو پورا پورا کرنا۔
(۲) مسجد کی طرف زیادہ قدم اٹھانا (یعنی لمبی مسافت طے کر کے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا)۔
(۳) ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں رہنا یہی رباط ہے (یعنی اس کا ثواب کے جہاد کیلئے سرحدوں پر پہرہ دینے کے ہم پلہ ہے)۔ مالک ابن انسؓ کی روایت ہے کہ آپ نے فذا لکھ الرباط (یہی رباط ہے) کو دوبار فرمایا:۔
”حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم کسی شخص کو مسجد میں پابندی سے حاضر ہوتے دیکھو تو تم اس کے ایمان کی شہادت دو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی مساجد کو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان لایا ہو۔“
”حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو لوگ تاریکیوں میں مسجد جانیوالے ہیںانہیں قیامت میں نورتام کی خوشخبری سنا دو۔
زکوٰة
”(بروایت ابوہریرہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ان دو شخصوں کی سی ہے جنہوں نے لوہے کی زر ہیں۔ پہنی ہوئی ہیں ان دونوں کے ہاتھ سینے اور حلق تک جکڑے ہوئے ہیں۔ قیا انسان جب صدقہ دیتا ہے تو وہ زرہ کشادہ ہو جاتی ہے اور بخیل جب صدقہ دینے کا خیال کرتا ہے تو وہ زرہ اور تنگ ہو جاتی ہے اور زرہ کا ہر حلقہ (چھلا) اپنی جگہ پر ڈٹ جاتا ہے۔
”حضرت عائشہ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے: ”جس دولت میں مال زکوٰة کی ملاوت ہو وہ تباہ و برباد ہوتی ہے۔“
تشریح : زکوٰة کی ملاوٹ کے دو مطلب شارحین حدیث نے بیان کیے ہیں:
(۱) جس مال میں زکوٰة واجب ہو اس میں سے اگر زکوٰة نہ نکالی جائے تو پورا مال نحوست اور بے برکتی کا شکار ہو جاتا ہے اور اخلاقی، شرعی طور پر وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اس کو ایک مسلمان اپنے استعمال میں لا سکے، گویا وہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
(۲) ایک شخص خوش حال اور غیر مستحق ہونے کے باوجود زکوٰة وصول کرتا ہے، اس طرح وہ زکوٰة و خیرات کا مال اپنی حلال کمائی میں ملا کر پورے سرمایہ کو ناپاک بنا دیتا ہے۔
روزہ
”حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کی کچھ حاجت نہیں ہے کہ وہ روزہ رکھ کر کھانا پینا چھوڑ دے“۔
حج
”(بروایت ابوہریرہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے اس گھر (بیت اللہ) کی زیارت کی اور فحش، فسق و فجور میں مبتلا نہیں ہوا تو وہ(پاک صاف ہو کر) اس طرح لوٹتا ہے جس طرح اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔“

1 comment: