عبید بن عمیر مشہور تابعی گزرے ہیں

عبید بن عمیر مشہور تابعی گزرے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان بڑی فصیح زبان دی تھی ، ان کی مجلس میں مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی بیٹھا کرتے تھے اور ان کے دل پر اثر کرنے والی گفتگو سے پھوٹ پھوٹ کرروتے تھے۔

حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں

حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ حضور اقدس نے زکوٰة کا مال وصول کرنے کیلئے بھیجا ، میں ایک صاحب کے پاس گیا اور ان سے ان کے مال کی تفصیل معلوم کی تو ان پر ایک اونٹ کا بچہ ایک سال کا واجب تھا

میں نے ان سے اس کا مطالبہ کیا وہ فرمانے لگے کہ ایک سال کا بچہ نہ دودھ کے کام کا، نہ سواری کے کام، انہوں نے ایک نفیس عمدہ جوان اونٹنی سامنے کی کہ یہ لے جاﺅ میں نے کہا کہ میں تو اس کو نہیں لے سکتا کہ مجھے عمدہ مال لینے کا حکم نہیں البتہ اگر تم یہی دینا چاہتے ہو تو حضور اقدس سفر میں ہیں اور آج پڑاﺅ فلاں جگہ تمہارے قریب ہی ہے حضور کی خدمت میں جا کر پیش کر دو اگر منظور فرما لیا تو مجھے انکار نہیں ورنہ میں معذور ہوں

وہ اس اونٹنی کو لے کر میرے ساتھ ہو لئے اور حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے پاس آپ کے قاصد زکوٰة کا مال لینے آئے تھے اور خدا کی قسم مجھے آج تک یہ سعادت نصیب نہیں ہوئی کہ رسول اللہ یا ان کے قاصد نے میرے مال میں کبھی تصرف فرمایا ہو اس لیے میں نے اپنا سارا مال سامنے کر دیا انہوں نے فرمایا کہ اس میں ایک سال اونٹ کا بچہ زکوٰة کا واجب ہے حضور ایک سال کے بچہ سے نہ تو دودھ کا ہی نفع ہے نہ سواری کا اس لیے میں نے ایک عمدہ جو ان اونٹنی پیش کی تھی جس کو انہوں نے قبول نہیں فرمایا۔ اس لیے میں خود لے کر حاضر ہوا ہوں۔ حضور نے فرمایا کہ تم پر واجب تو وہی ہے جو انہوں نے بتلائی مگر تم اپنی طرف سے اس سے زیادہ اور عمدہ مال دو تو قبول ہے اللہ تمہیں اس کا اجر مرحمت فرمائیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ حاضر ہے حضور نے قبول فرما لیا اور برکت کی دعا فرمائی،

یہ زکوٰة کے مال کا منظر ہے آج بھی اسلام کے بہت سے دعویدار ہیں اور حضور کی محبت کا دم بھی بھرتے ہیں لیکن زکوٰہ کے ادا کرنے میں زیادتی کا تو کیا ذکر ہے۔ پوری مقدار میں ادا کرنا موت ہے جو اونچے طبقے والے زیادہ مال والے کہلاتے ہیں ان کے یہاں تو اکثر و بیشتر اس کا ذکر ہی نہیں لیکن جو متوسط حیثیت کے لوگ ہیں اور اپنے کو دیندار بھی سمجھتے ہیں وہ بھی اس کی کوشش کرتے ہیں جو خرچ اپنے عزیز رشتہ داروں میں یا کسی دوسری جگہ مجبوری سے پیش آجائے اس میں زکوٰة ہی کی نیت کر لیں۔

۔”اسماؓءبنت یزید انصاری سے روایت ہے

349۔”اسماؓءبنت یزید انصاری سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے، میں اس وقت اپنے پڑوس کی سہیلیوں کے ہمراہ تھی، آپ نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا: محسنوں کی ناشکری اور ناقدری سے بچو

تم میں سے ایک اپنے والدین کے ہاں عرصہ دراز تک بے بیاہی رہتی ہے پھر اللہ تعالیٰ اسے شوہر کی نعمت سے ہم کنار فرماتا ہے پھر اس کے ہاں اولاد کی چہل پہل ہوتی ہے ان تمام احسانات کے باوجود اگر کبھی بات پر شوہر سے شکر نجی ہو جاتی ہے تو اس لمبی رفاقت کو نظر انداز کرتے طوطاً چشمی سے کہہ اٹھتی ہے کہ میں نے کبھی تجھ سے اچھا سلوک دیکھا ہی نہیں۔ توضیح: اس روایت سے کئی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔

1۔ اگر کہیں عورتوں کا مجمع ہو، اور تہمت کا اندیشہ بھی نہ ہو تو نا محرم ان کو سلام کر سکتا ہے۔

2۔ اس حدیث میں عورت کے ایک خاص مزاج اور افتاد طبع کو بیان کیا گیا ہے کہ اگر کبھی شوہر سے ذراسی ناراضگی ہو جائے تو ایک لمحہ میں اس کا سارا کیا کرایا ملیا میٹ کر دیتی ہے صحیح معنی میں گھریلو فضا اسی وقت خوش گوار ہو سکتی ہے جبکہ شوہر کی صرف خامیوں اور عیوب پرہی نگاہ نہ ہو بلکہ اس کے محاسن اور خوبیوں کا بھی اعتراف کیا جائے یہی ہدایت ایک دوسری حدیث میں مردوں کو بھی کی گئی ہے جیسا کہ فرمایا: ”کوئی مومن مرد شوہر کسی مومن عورت بیوی سے بعض نہ رکھے، اور اگر کی ایک عادت ناپسند ہوتو ہو سکتا ہے کہ اس کی دوسری عادت اسے بھلی معلوم دے جائے۔

تصنع اور جھوٹ

350۔ بروایت اسماءؓ ایک عورت نے کہا: یا رسول اللہ! میری ایک سوکن ہے کیا میرے لیے اس میں کوئی حرج ہے کہ شوہر جو کچھ مجھے دیتا ہے اس کے علاوہ بھی میں سوکن پر اپنی آسودگی اور خوش پوشی کا مظاہرہ اس طرح پر کروں کہ یہ سب کچھ شوہر ہی دے رہا ہے؟ آپ نے فرمایا: ،یہ واقعہ خوش حالی کا اظہار کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جس نے جھوٹ کا لباس زیب تن کیا ہوا ہے۔“ تشریح: انسان فی الواقع جتنا کچھ ہے اپنے لباس اور وضع قطع سے بھی اسی قدر اس کا اظہار ہونا چاہیے۔ فخر و نمائش یا دوسروں کو چڑانے کیلئے واقعہ کے خلاف اپنی پوزیشن بڑھ چڑھ کر دکھلانا بھی ایک قسم کا جھوٹ ہی ہے۔

مرعوبیت اور نقالی

351۔ ”حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی قوم کی مشاہت اختیار کرتا ہے تو وہ انہی میں شمار ہوتا ہے۔“ توضیح: ممنوع تشبہ کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں۔

1۔ کوئی مسلمان اپنا خلیہ اور رہین سہن کا ڈھانچہ اس طرح مسخ کر ڈالے کہ غیر مسلموں سے بظاہر کوئی امتیاز باقی نہ رہے۔

2۔ مسلم معاشرہ کا کوئی فردیا مسلمان من حیث القوم غیر مسلموں کا شعار قومی نشان اختیار کر لیں ان کے علاوہ غیر مسلم اقوام کی تہذیب یا رسم و رواج میں سے اگر مفید اجزا اپنا لیے جائیں تو یہ اس حدیث کے منافی نہیں ہے۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہ اور کوٹ زیب تن فرمایا۔ یا مثلاً ام حبیبہؓ کے مشورہ سے آپ نے اہل حبشہ کے رواج کے مطابق عورتوں کے جنازے پر پردے کیلئے کماندار تیلیاں لگوائیں۔ اسی طرح آپ نے سلمان فارسیؓ کے مشورہ سے غزوہ احزاب کے موقع پر ایرانیوں کے طریقے کے مطابق خندق کھدوائی۔

شرکت اور شخصیت پرستی

352۔ ”ابوالہیاج اسدی سے روایت ہے کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت علیؓ نے کہا: میں تمہیں اس کام پر بھیجتا ہوں جس کام پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا کہ جہاں کوئی تصویر دیکھو اسے مٹا دو اور جہاں کوئی اونچی قبر دیکھو اسے برابر کر دو۔“ توضیح: شرک اور شخصیت پرستی کے اسباب میں سے دو بڑے سبب اس حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔

شاہانہ کروفر

353۔ ”قدامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کے دن سرخ و سپید اونٹنی پر سوار جمرہ کو کنکریاں مارتے دیکھا۔ اس موقع پر نہ مارپیٹ تھی نہ ڈانٹ ڈپٹ تھی اور نہ ہٹو بچو کا ہنگامہ۔“ تشریح: جس طرح عام طور پر شاہی سواریوں کے آگے شان و شوکت، جاہ و جلال اورہٹو بچو کے مظاہرے ہوتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس سے یکسر پاک تھی۔

شاہانہ جاہلی امتیاز کا خاتمہ

354۔ ”حضرت ابو مسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ امام کسی اونچی جگہ کھڑا ہو اور لوگ اس کے پیچھے یعنی اس سے نیچے کھڑے ہوں۔“

اسلام جہاں الوہی اصولوں پر جمہوری معاشرے کے قیام کی تعلیم دیتا ہے

اظہار رائے کی آزادی کا حق

اسلام جہاں الوہی اصولوں پر جمہوری معاشرے کے قیام کی تعلیم دیتا ہے وہاں وہ ان تمام حقوق و فرائض کا بھی اورواضح انداز سے تعین کرتا ہے جو ایک فلاحی اور جمہوری معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہیں۔ اظہار رائے کی آزادی کے بغیر کسی بھی معاشرے میں جمہوری اقدار اورعدل و انصاف کی روایت تشکیل پذیر نہیں ہوسکتی ۔ اسی لئے اسلام نے نہ صرف ہر فرد کو اظہار رائے کی آزادی کا حق عطا کیا ہے بلکہ اہل اسلام کو اپنے اجتماعی معاملات اصول مشاورت پراستوار کرنے کی تعلیم بھی دی ہے :

” اور اپنے پروردگار کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ۔ اور ان کا ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیںo“ ” اور آپ (اہم) کاموں میںان سے مشورہ کیا کریں پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تواللہ پر بھروسہ کیا کریں۔ بے شک اللہ توکل والوں سے محبت کرتا ہےo “

اظہار رائے کی آزادی میں حق تقریر

حق رائے ، اختلاف اورتنقید کا حق اورجدید الفاظ میں صحافتی آزادی بھی شامل ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ شہریوں کے سوچنے، رائے رکھنے اوراپنی رائے کے اظہار کرنے میں ریاست کبھی بھی مداخلت نہیں کرے گی۔ اسلام نے یہ حق ہر فرد کو عطا کیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے : ” اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں(اہل حق ) صاحبان امر کی ، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم با ہم اختلاف کرو تو اسے (حتمی فیصلہ کے لیے) اللہ اوررسول (A) کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ پر اوریوم آخرت پرایمان پر رکھتے ہو، (تو) یہی( تمہارے حق میں) بہتر اورانجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہےo “ اس آیت مبارکہ میں اپنے تنازعات کوالوہی قانون کی روشنی میں حل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کیونکہ انسانی سطح پرکوئی بھی قانون اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ وہ کسی بھی تنازع کو طے کرتے ہوئے عدل کے تقاضے کو اس طرح پورا کرے کہ افراد معاشرے کے اظہار رائے کا حق بھی محفوظ رہے۔

دوسرے مقام پرارشاد ہے : ” ( یہ اہل حق) وہ لوگ ہیں کہ ہم انہیں زمین میں اقتداردے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام ) قائم کریں اورزکوٰة کی ادائیگی (کا ہتمام) کریں اور(پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کاحکم کریں اور (لوگوں کو ) برائی سے روک دیں اورسب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہےo “ اس آیت مبارکہ میں بھی اسلام کے پھیلانے اوربرائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حکم کی حکمت بھی یہی ہے کہ کسی بھی معاشرے میں اس وقت ہی نیکی کا فروغ اوربرائی کاقلع قمع ہوسکتا ہے جب وہاں اظہار رائے کی آزادی کا حق محفوظ ہو۔ قرآن حکیم نے حکومتی معاملات میں بھی مشاورت کے اصول کو اپنانے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔ ” (اے حبیب والا صفات ) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں اوراگر آپ تندخو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کربھاگ جاتے سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اوران کے لیے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ پربھروسہ کیا کریں بے شک اللہ توکل والوں سے محبت کرتا ہےo “

”اور (ان کے لیے ہے) جو اپنے پروردگار کاحکم مانتے ہیں اورنماز قائم کرتے ہیں۔ اوران کا ہر کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے (بجزفرائض اوران معاملات کے جن میں مشورے کی ضرورت نہیں ہوتی) اورجوہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں (خواہ مال و دولت ہو، یا علم وعرفان)o “ اصول مشاورت بیان کرنے والی یہ آیات بھی اظہار رائے کی آزادی کو بیان کرتی ہے۔ کیونکہ مشاورت کا عمل اس وقت تک انجام پذیر نہیں ہوسکتا جب تک حکمران عوام سے مشورہ طلب نہ کرے اورعوام اس وقت تک مشورہ نہیں دے سکتے جب تک کہ انہیں اظہار رائے کی آزادی کاحق نہ ہو۔ لہٰذا قرآن حکیم کااصول مشاورت کواپنانے کا حکم اس حکمت کاحامل ہے کہ اسلامی ریاست میں ہر شہری کواظہار رائے کی آزادی کاحق حاصل ہوگا۔

سیرت نبوی میں ہمیں اس امر کی کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں حضور اکرم ﷺ نے اپنے صحابہ سے مختلف معاملات پر مشاورت کی غزوہ بدر، اسیران بدر، غزوہ احد، غزوہ احزاب اورمعاہدہ حدیبیہ میں حضور اکرم ﷺ نے فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے سے مشورہ کیا۔ ایک مشہور حدیث کے مطابق آپ نے ارشاد فرمایا : ” بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔“ حضور اکرم ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی اسلام کی انہی زریں تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے جملہ معاملات میں باہمی مشاورت کے اصول پرعمل کیا۔ ان کے دور خلافت میں اظہار رائے کی آزادی کایہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کے خطبہ جمعہ کے دوران ایک شخص نے کھڑے ہوکر آپ سے عتراض کیا کہ وہ آپ کے خطبہ کواس وقت نہیں سنیں گے جب تک کہ وہ اپنے کرتے کے لیے بیت المال سے زیادہ کپڑا لینے پرجواز فراہم نہ کرے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ نے خواتین کے حق مہر کی مقدار کے تعین کا ارادہ کیا تو ایک خاتون نے آپ کے اس فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا۔ آپ نے قرآن حکیم کی یہ آیت نہیں پڑھی : ” اوراگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اورتم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ظلم وبہشت کے ذریعے اورکھلا گناہ کر کے وہ مال (واپس) لوگے o “ حضرت عمر ؓ نے اعتراض کرنے والی خاتون کی دلیل کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف اپنا فیصلہ واپس لے لیا بلکہ اس کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے انہیں ایک غلطی سے بچا لیا۔

19۔ مریض کا حق

اسلام ہر فرد معاشرہ کو ایسا سماجی مقام دیتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو معاشرے کا ایسا جزو تصور کرے جہاں اس کے ماحول کا ہر فرد اس کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہے۔ سیرت نبویﷺ کی تعلیمات اس کا ہمہ گیر احاطہ کرتی ہیں۔ مریض جو قدرتی معذوری کے سبب معاشرے کا عضو فعال نہیں رہتا، اس امر کا مستحق ہے کہ اسے بھر پور توجہ دی جائے اسلام نے مریض کو وہ حقوق عطا کئے ہیں جو کسی دوسرے معاشرے میں نہیں دیکھے جا سکتے۔ آپ نے افراد معاشرہ کو مریض کے معاشرتی، نفسیاتی، طبی اور سماجی حقوق کے تحفظ کی تلقین فرمائی کہ نہ صرف مریض کی صحت یابی کیلئے جملہ اقدامات کئے جائیں بلکہ اس کے نفسیاتی و سماجی مورال کو بھی بلند رکھا جائے۔ ”حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا: جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو لوٹنے تک گویا وہ جنت کے باغات میں ہوتا ہے۔“ ”حضرت ثویر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے ان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا میرے ساتھ آﺅ حسن کی عیادت کریں اور ہم نے دیکھا کہ حضرت ابو موسیٰ حسن کے پاس ہیں تو حضرت علی نے فرمایا اے ابو موسیٰ کیا تم حسن کی عیادت کیلئے آئے تھے یا ملنے کیلئے تو ابوموسیٰ نے فرمایا نہیں بلکہ میں عیادت کیلئے آیا ہوں۔