مرتبہ: عظمان عمر 
اسلام پوری انسانیت کےلئے رحمت بن کر آیا۔ حضور نبی اکرم نے انسانیت کو اسلام کی آفاقی تعلیمات عطا کر کے ہر نوع کی غلامی، جبر اور استحصال سے آزاد کر دیا۔ انسانیت پر آپ کے اس احسان اور منصب نبوت کے اس پہلو کا تذکرہ قرآن حکیم نے یوں کیا:
”اور (یہ رسول گرامی) اہل ایمان پر سے انکے بار گراں اور طوق (قیود) جوان پر (مسلط) تھے، ساقط فرماتے اور انہیں نعمت آزادی سے بہرہ یاب کرتے ہیں۔“ آپ کی شان کا فیضان انفرادی و اجتماعی دونوں سطح پر روبہ عمل ہوا۔ انفرادی سطح پر اسلام نے افراد معاشرہ کو وہ حقوق عطا کئے جن کا شعور انسانیت آج حاصل کر رہی ہے۔ آپ کے عطا کردہ نمایاں انفرادی حقوق یہ ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ لوگ خاضر تھے کہ ایک شخص سامنے سے گزرا حضور نے دریافت فرمایا کہ تم لوگوں کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے، عرض کیا یا رسول اللہ شریف لوگوں میں ہے، واللہ اس قابل ہے کہ اگر کہیں نکاح کا پیام دے دے تو قبول کیاجائے کسی کی سفارش کر دے تو مانی جائے۔ حضور سن کر خاموش ہو گئے
  امام احمد بن حنبل کو بھی مامون کے حکم پر بیڑیوں میں بغداد لایا گیالیکن جب وہ بغداد پہنچے تو مامون کا انتقال ہو چکا تھا، اس کا بھائی معتصم با اللہ اقتدار میں تھا اور احمد بن داود قاضی القضاہ اب امام صاحب کا دور ابتلا شروع ہوا۔ ان پر سختی کی گئی اور ڈرانے کیلئے ان کے سامنے عقیدہ خلق قرآن کے منکرین کی گردنیں اڑائی گئیں۔ معتصم کے سامنے احمد ابن داود نے ان سے مناظرہ بھی کیا۔ مگر ان کا ایک ہی جواب تھا کہ میں یہ عقیدہ تبھی قبول کروں گا اگر اسے قرآن سنت سے ثابت کر دیا جائے مگر احمد ابن داود اس میں ناکام رہا۔ تنگ آکر معتصم خود اٹھا اور امام صاحب کے منہ پر تھپڑوں کی بارش کر دی یہاں تک کہ وہ بےہوش ہو گئے۔ پھر ان کے ہاتھ اور پیر باندھ کر اس شدت سے کوڑے لگوائے گئے کہ ساری عمران کی کمر سے کوڑوں کے نقش نہ گئے۔ پھر تلواروں کی نوکیں چبھوا کر انہیں اٹھایا گیا اور حبشی غلام گھسیٹتے ہوئے انہیں قید خانے میں چھوڑ آئے جہاں وہ مزید اٹھارہ ماہ قید رہے۔ اب انتہائی جابر واثق باللہ کا دور آیا۔ وہ مامون اور معتصم سے بڑھ کر متشدد معتزلی تھا۔ احمد بن داود ابھی تک قاضی القضاہ تھا اور منکرین خلق قرآن سے مناظرے کر کے انہیں واثق باللہ کے ہاتھوں قتل کروا دیتا تھا مگر اب ظلم اپنی حدوں سے گزر چکا تھا اور درد نے بڑھ کر دوا کی صورت اختیار کرلی تھی۔ اسی واثق باللہ نے جب ایک بے خوف شخص کو احمد بن داود کے سوالوں کے جواب استقامت اور دلیری سے دیتے سنا تو اس پر گریہ طارق ہو گیا اور اس نے حکم دیا کہ اس شخص کی بیڑیاں کاٹ دی جائیں۔ امام احمد بن حنبل کو بھی واثق باللہ نے کچھ نہیں کہا، سوائے اپنے ہی گھر میں نظر بند کر دینے کے۔ امامصاحب وائق کے دور میں کبھی نماز کیلئے گھر سے باہر نہیں نکلے۔ کہا جاتا ہے کہ وائق نے آخری دنوں میں عقیدہ خلق قرآن سے توبہ کر لی تھی اور احمد بن داود اس کی نظروں سے گرگیا تھا۔ بہر حال واثق کی وفات زوال معتزلہ کی پہلی منزل تھی۔

